جدید دور کا حقیقی لیڈر : علامہ خادم حسین رضوی (رحمتہ اللّہ علیہ)
قیادت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسان کی اجتماعی زندگی کی داستان پرانی ہے. انسانوں نے جس دن سے فطری تقاضے کے مطابق ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اسی دن قیادت کے نظریہ نے نہ صرف یہ کہ جنم لیا بلکہ عملی طور اپنا کردار ادا کرنا بھی شروع کر دیا. دنیا کی ہر تہذیب نے ہر دور میں انسانی معاشرے کے لیے قیادت کو مختلف شکلوں میں تسلیم بھی کیا ہے اور اسے اپنے منہج کے مطابق رواج بھی دیا ہے. قدیم یونانی تہذیب ہو یا زمانہ جاہلیت کی عرب تہذیب، ایران کی آتش پرست تہذیب ہو یا روم کی صلیب بردار تہذیب، مصر کے فراعنہ کی تہذیب ہو یا بھارت کی برہمن تہذیب؛ ہر تہذیبی معاشرے میں قیادت کے باوقار منصب کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے. پھر ہر تہذیب میں اس منصب کی اہلیت کے لیے اعلیٰ معیار کی مختلف اخلاقیات کو مطلوب بھی رکھا گیا ہے اور اس کے بر عکس اخلاقی، ذہنی یا معاشرتی طور پر کمزور قیادت کو معیوب اور ناقابل تسلیم قرار دیا گیا ہے. رہی اسلامی تہذیب کی بات تو تاریخ کے مطابق اسلام نے حضرت عمر فاروق، خالد بن ولید، حضرت عمر بن عبدالعزیز، سلطان نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی اور حضرت اورنگزیب عالمگیر جیسے ہونہار قائدین پیدا کر کے قیادت کے تمام سابقہ معیاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے. ماضی قریب تک قیادت کے سلسلے میں دنیا کی تمام قوموں کا Imagination بہت ہی اونچے درجے کا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تہذیب میں پروان چڑھنے والی قیادتوں کے مقابلے میں ان کے اونچے اونچے معیاروں کا قد بھی بہت چھوٹا نظر آتا ہے.
اصل بات یہ ہے کہ ماضی قریب کے مادی و سیاسی انقلابات نے قیادت کے اِس تاریخی تصور کو کافی حد تک متاثر ہی نہیں بلکہ مجروح بھی کیا ہے. جدید دور کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ دور واہموں کا دور ہے. یہاں ہر چیز فارمیلیٹی کے طور پر کی جاتی ہے. اس دور میں جتنا تصنّع ایجادات میں ہے اتنا ہی نفسیات و اخلاقیات میں بھی ہے. اور اب تو ما بعد جدیدیت کا مرحلہ ہے. یہاں تو جدیدیت کے بھی تار و پود بکھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں. ما بعد جدید دور کی دنیا میں سیاسی تجارت اور تجارتی سیاست کا فلسفہ جتنا عام ہے اتنا ہی غلامانہ قیادت کا نظریہ بھی شائع ذائع ہے. مغربی نشاۃ ثانیہ کی بے راہ روی کے نتیجے میں سامنے آنے والی جدید تہذیب اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی جمہوریت نے قیادت کے فلک شگاف تصور کو زمیں بوس ہی نہیں بلکہ زندہ در گور کر دیا. جدید دور کی مغربی تہذیب نے جہاں معیشت کی بنیاد سود پر، سیاست کی بنا خیانت پر، جنسیات کی ساکھ زنا پر اور معاشرت کی نِیو خود غرضی پر لا کر رکھ دی ہے وہیں منصبِ قیادت کو بھی غلامی کے مرہون منت کر دیا ہے. یعنی اب جو لیڈر مغرب کے تاجرانہ ضمیر کا جتنا بڑا غلام ہوتا ہے اسے اتنا ہی بڑا قائد، نیتا یا سیاست دان باور کرایا جاتا ہے.
مذکورہ تفصیلات کے مطابق قیادت کی اعلٰی و ادنیٰ سطحوں کو سمجھنا اور امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی جیسے ہونہار قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہمارے ذمے قرض ہے. اگر ہماری نسل یہ قرض ادا کر دے تو مشرقی دنیا قیادت کے عظیم معیار کو بہتر طریقے پر سمجھ کر اسلامی قیادت کو دوبارہ اپنے سروں پر دیکھنے کی متمنّی ہوگی اور مغربی دنیا جدید طرز کی ایمان دار قیادت سے آگاہ ہو کر اپنے یہاں غیرت مند و امانت دار قیادت پروان چڑھانے کے لیے اسلامی تہذیب کو زیادہ قریب سے سمجھنے و اپنانے پر آمادہ ہوگی. علامہ خادم حسین رضوی کے قائدانہ اوصاف کو ذکر کرنا در اصل دنیا کو قرآن کے تصورِ قیادت کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے. ذیل میں ہم علامہ رضوی کی قیادت اور جمہوری قیادتوں کا تقابل کرتے چلیں گے تا کہ قاری آسانی سے، جس اسلامی تہذیب کو نام نہاد روشن خیال زوال پذیر بتا رہے ہیں؛ اِس کس مپرسی کے عالم میں اُس کی زر خیزی اور جس مغربی تہذیب کے عروج کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے؛ ترقی کے تمام تر دعووں کے باوجود اُس کے بانجھ پن کا اندازہ لگا کر اپنے لیے آگے کی راہ کا تعین کر سکے.
جدید سرمایہ داری (Neo-capitalism) کی اِس نئی دنیا میں جمہوریت سے متعلق اقبال کی تنقید اور بھی واضح شکل میں سامنے آتی ہے کہ "وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے" یعنی جدید دور کی سیاست نے یہ ثابت کر دیا کہ اب کی قیادت میں امانت داری، جرأت و بہادری، علم دوستی، حق پرستی، انصاف پسندی، رَعیّت نوازی اور مظلوم پروری کا وزن تلاش کرنا لایعنی چیز ہے. اکیسویں صدی کی اِس نئی دنیا میں کامیاب قیادت وہی ہے جسے جھوٹے وعدوں سے عوام کا اعتماد چرانے اور اوچھے ہتھکنڈو…